Free Online Image Converter Tool All Formats (JPG, WEBP, PNG, ICO, GIF, SVG)
سپریم کورٹ میں 9 مٸی سے متعلق خصوصی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔
آرمی ایکٹ کے تحت حراست میں لئے گئے ملزمان کا فئیر ٹرائل یقینی بنانے کیلئے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو تین یقین دہانیاں کرادیں، کہا کہی ملزمان کا ٹرائل اوپن کورٹ میں ہوگا، ملزمان کو مرضی کے پرائیوٹ وکیل کی خدمات لینے کا موقع بھی ملے گا، ٹرائل کے بعد جو بھی فیصلہ ہوا وہ تفصیلی وجوہات پر مشتمل ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ جہاں تک اپیل کا معاملہ ہے آرمی ایکٹ میں ایک اپیل کا ذکر موجود ہے تاہم عدالت نے کسی آئینی عدالت کے سامنے اپیل کا جو سوال اٹھایا تھا اس پر غور کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا جائے۔
کلبھوشن کیس کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل بولے میں سب کچھ کہنا نہیں چاہتا مگر بہت محتاط رہ کر چلنا ہوگا تاکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی پوزیشن متاثر نہ ہو۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے تصدیق مانگی کہ آپ عدالت کے سامنے یہ بیان دے رہے ہیں کہ حکومت ملزمان کو اپیل کا حق دینے پر غور کررہی ہے؟، کیا ایسا قانون سازی سے ہوگا؟۔ اٹارنی جنرل بولے جی ہاں، حکومت مکمل جائزہ لے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا قانون سازی کا معاملہ تو قومی اسمبلی اور سینیٹ جاتا ہے، تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آئندہ حکومت اس معاملے کو دیکھے گی؟۔
درخواستگزار اعتزاز احسن دوران سماعت نشست سے کھڑے ہوئے اور کہا حکومت صرف اس 6 رکنی بینچ سے خوفزدہ ہے کہ اس کا فیصلہ نہ آجائے۔ وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا یہ ضیاء دور تو نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا کہا کہ موجودہ دور کو مارشل لاء دور سے مت ملائیں، مارشل لاء جیسی صورتحال ہوئی تو عدالت مداخلت کرے گی، ہمارے کہنے پر گرفتار ملزمان کا فیملی سے رابطہ تک کرایا گیا۔
درخواستگزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل نے کہا حکومت کو سوچنے کا وقت چاہئے تو عدالت ضرور دے مگر تب تک سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر حکم امتناع جاری کیا جائے۔
چیف جسٹس نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کی یقین دہانی موجود ہے، ابھی کوئی ٹرائل نہیں چل رہا، ریلیکس رہیں، عدالت کو آگاہ کئے بغیر کوئی پیشرفت ہوئی تو مجاز شخص کو بلا لیں گے۔
عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت کی تاریخ کیا ہوگی، مشاورت سے طے کریں گے۔
اس سے قبل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ 9 مئی کی ویڈیوز میں کئی لوگ حساس مقامات پر حملہ کرتے نظر آئے، صرف 102 افراد ملٹری ٹرائل کی فہرست میں ہیں، جن کا انتخاب انتہائی احتیاط سے کیا گیا، 9 مئی کو حملے آرمی اور ایئرفورس کی تنصیبات پر ہوئے، میانوالی میں ایئربیس پر بھی حملے کئے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے حملے مستقبل میں نہیں ہونے چاہئیں، ان حملوں پر جو ردعمل تھا وہ ایسا نہیں تھا جو ہونا چاہئے، میں نے 9 مئی کے پیچھے منظم منصوبے کی بات کی تھی، میں نے تصاویر بھی عدالت میں پیش کی تھیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے پوچھا کہ کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا کس کا نہیں؟، اس کا انتخاب کیسے کیا گیا؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم بہت محتاط ہیں کہ کس کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلنا ہے، 102 افراد کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے بہت احتیاط برتی گئی ہے، 9 مئی جیسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت میں دکھائے گئے ویڈیو کلپس سے ظاہر ہے 9 مئی واقعات میں بہت سے افراد شامل تھے، بڑی تعداد ہونے کے باوجود احتیاط کے ساتھ 102 افراد کورٹ مارشل کیلئے منتخب کئے گئے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ 9 مئی کا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے، مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک کرنا ہے، میانوالی میں ایئرکرافٹ پر حملہ ہوا ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہوسکتا تھا، سول جرائم اور سویلنز کی جانب سے کئے گئے جرائم میں فرق ہے، 2 ون ڈی کے تحت ہونے والے جرائم پر ہی ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوں گے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟، قانون بالکل واضح ہونا چاہئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کیلئے 21 ویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کیلئے شرائط رکھی گئیں، 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئے تھیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں لگتا ہے اپنی ہی کہی ہوئی بات کی نفی کررہے ہیں، کیا آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ جی آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ 2015 کا سیکشن 2(1) بی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آرمی ایکٹ 2015ء میں زیادہ زور دہشتگرد گروپس پر دیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ میں افراد کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم سے قبل بھی آرمی ایکٹ کا سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے مزید پوچھا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں کبھی جارہے ہیں، قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہئے، آپ کی دلیل یہ ہے ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے، اس بارے میں سوچیں، پاکستان کے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015ء میں 21ویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کردیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بریگیڈیئر ایف بی علی کیس ریٹائرڈ فوجی افسران سے متعلق تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا طریقۂ کار بتاؤں گا پھر عدالتی سوال پر آؤں گا، جس کمانڈنگ آفیسر کی زیر نگرانی جگہ پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ دی جاتی ہے، رپورٹ جی ایچ کیو ارسال کی جاتی ہے، آرمی ایکٹ رولز کے تحت ایک انکوائری شروع کی جاتی ہے اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کرکے چارج کیا جاتا ہے، الزامات بتاکر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں، اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارج ختم کردیتا ہے، ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرواسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کو اپنے دفاع کیلئے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے، سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دو تہائی سے ہونا لازمی ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہاں یہ معاملہ اس کیس سے متعلق نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرا بیان آج تک کی اسٹیج تک کا ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/glUd5bv
Free Online Image Converter Tool All Formats (JPG, WEBP, PNG, ICO, GIF, SVG)
0 Comments
Post a Comment